سال 2018 میں میرا ایک بھائی فوت ہوا جو کہ گورنمنٹ ملازم تھا جس کے تین بچے ہیں دو بیٹے ایک بیٹیزندہ ہیں فوت ہونے کے بعد اس کی تنخواہ اس کی بیوہ کے نام سے شروع ہو گئی کیونکہ بچے 18 سال سے کم عمر ہیں فیملی میں ہم پانچ بھائی باقی چار بھائی شادی شدہ تھے جن میں ایک کی ڈیتھ ہو گئی اور باقی زندہ حیات ہیں بیوہ کے نام پہ تنخواہ ٹرانسفر ہونے کے کچھ مہینے بعد 2018 میں شوہر کی ڈیتھ ہو رہی ہے اور 2019 میں بیوہ کا اپنے دیور کے ساتھ نکاح کر دیا گیا شرعی طور پر نکاح ہوا کتابی اندراج نہیں ۔ اس کے ٹھیک چار یا پانچ منتھ بعد گھر میں جس طرح چھوٹے موٹے معاملات ہوتے ہیں ان کو الگ کر دیا گیا کہ اب اپ لوگوں کی اپنی ذاتی آمدن ہے اور ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جس وجہ سے ہمارے مسائل زیادہ ہیں لہذا اپ لوگ اپنا کریں اور ہم اپنا کریں گے 2019 سے لے کر 22 تک تین بچے ان کی ماں اور جس بندے کے ساتھ اس کا نکاح ہوا ہے وہ ایک ہی گھر میں رہتے رہے 2022 دسمبر میں ان بچوں کی ماں بیمار ہو رہی ہے اور اسی منتھ اس کی موت واقع ہو جاتی ہے بیماری کی حالت میں اب اس کے مرنے کے بعد اسی گھر میں مطلب جب ان کو الگ کیا گیا تھا جو کہ گھر کا سربراہ بنا ہوا تھا بڑا تھا جس نے الگ کیا تھا ان کی ماں کے فوت ہونے کے ٹھیک تین چار دن بعد کیونکہ اس کے گھر میں ان بچوں کی خالہ ہے اور وہ رشتے میں چچی بھی لگتی ہے کیونکہ دونوں بہنوں کی شادی ایک ہی گھر میں ہوئی تھی تو اس نے کہا کہ جی اب بچوں کی جو ذمہ داری ہے یا کفالت ہے یہ میں اپنے ذمے لیتا ہوں اور جس بندے نے نکاح کیا تھا اس نے اب تک بڑی قربانی دے لی ہے لہذا وہ اپنے گھر اور اپنی شادی کا سوچے اس وقت میں نے کہا یہ وقت کے ساتھ ساتھ دیکھیں گے ابھی تک تو مرنے والی کو تین چار دن ہوئے ہیں یا پانچ دن ہوئے ہیں آپ کو بچوں کی فکر پڑ رہی ہے وقت کے ساتھ دیکھیں گے کہ بچے کس کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں اب میں نے اگے شادی کر لی ہے شادی کرنے کے بعد بچوں کی کفالت میرے پاس ہو رہی ہے مطلب رشتے میں چاچی بھی ہے اور سوتیلی ماں بھی ہے بچوں اسے ماں کر کے بولتے ہیں ان کا کھانا پینا ان کے کپڑے یونیفارم یہ سارا کچھ اسی گھر میں مینٹین ہو رہا ہے اب گھروں میں لین دین چھوٹے موٹے معاملات تو ہوتے ہی ہیں اس بارے میں کوئی بات چیت ہوئی ھے اور وہ جو خالہ اور اس کا ہسبینڈ خالو ہے انہوں نے کہا ہے کہ بچے ہمیں واپس دے دو بچوں کی کفالت ہم کریں گی جبکہ بچے خود اپنے منہ سے کہہ رہے ہیں ایک بیٹا نو سال کا ہے ایک چھوٹا سات سال کا ہے جبکہ بیٹی 13 سال کی ہے کہ جی نہیں ہم یہاں ٹھیک ہیں ہم نے اسی چاچو کے ساتھ رہنا ہے ہماری ماں بھی اسی کے ساتھ رہ رہی تھی تو ہم یہیں رہیں گے وہ کہتے ہیں کہ جی نہیں بچے واپس لے جائیں گے ہمارا رشتہ زیادہ ہے ہمارا حق زیادہ ہے میرے گھر مطلب بچوں کی خالہ ہے اور میں بچوں کا تایا ہوں ایک تو اس سوال کی سمجھ نہیں مجھے آ رہی ہے کہ جس بندے نے 2019 میں بچوں کو خود ہی الگ کیا تھا ان کی ماں کو بچوں کو اور جس کے ساتھ مطلب جس بھائی کے ساتھ ان کی ماں کا نکاح تھا اب انہی بچوں کا وہ وارث بن رہا ہے تو کس لحاظ سے بن رہا ہے جبکہ بچے اپنے گھر میں خوش ہیں اور مرحومہ کے بعد اس کے مرنے کے بعد جو وراثت ہے جو کچھ جتنا سامان ترکہ ہے وہ سب کچھ اسی کے قبضے میں ہے مرحومہ کی موت کے بعد 1 اس وراثت میں حقدار کون کون ہے اکیلے بچے ہیں یا جس کے ساتھ مرحومہ کا نکاح ہوا تھا وہ بھی حقدار ہے وراثت میں زمین ہے جو مطلب اس کو پہلے گھر والے سے ملی تھی جو حصہ بنا تھا اس کا وراثت کا اور اس کے گھر والے کی فوت ہونے کے بعد جو زمین اپنے ذاتی پیسوں سے خریدی گئی تھی تقریبا وہ چار کنال ہیں اب اس زمین کا چھٹا حصہ مرحومہ کے والد اور والدہ کو بھی جو ہے ٹرانسفر ہو چکا ہے ان کو بھی وراثت میں دے دیا گیا ہے تو جب گھر والے کی بات اتی ہے کہ جی اس کا بھی ایک بٹا چار بنتا ہے تو یہاں آ کے مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے اور سننے کے کو یہ جواب ملتا ہے کہ جی یہ نکاح پہ ایک فارمیلٹی تھا بچے چھوٹے تھے اور بیوہ کے لیے کوئی سہارا نہیں تھا تو چلو ہم نے یہ سوچا تھا کہ جی بیوہ کو ایک سہارا مل جائے گا اور بچوں کی پرورش ہو جائے گی جس بندے نے قربانی دی ہے چھوٹے چھوٹے بچوں کو انگلی پکڑ کے اور ان کو سہارا دیا سنبھالا ہے اور بیوہ کو بھی اب اس بندے کا وراثت میں کوئی نام نشان نہیں آرہا کیا واقعی ہی شرعی طور پر شریعت میں اس نکاح کرنے والے بندے کا کوئی حصہ نہیں بنتا رہنمائی درکار ہے۔۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب مرحومہ بیمار ہوئی ہیں تو ان کی بیماری پر تقریبا دو لاکھ 30 35 ہزار روپے ٹوٹل خرچہ ہوا ہے جس میں 50 ہزار روپے اس کے ابا نے ادا کیے تھے کچھ ان کے ذاتی تنخواہ کے تھے اور ایک لاکھ روپے باہر سے ادھار لے کر علاج کا خرچ ہوا تھا وہ جو قرض والی رقم ہے وہ میں نے کہہ دی کہ اب انکی کی تنخواہ آ گئی ہے الحمدللہ 80 ہزار سے اوپر ہے تو ایک لاکھ روپے کا ہے ان کی ماں کی علاج کے لیے جو پیسے لیے گئے تھے یہ قرض میرے ساتھ بھروا دے تو گھر والوں نے یہ فتوی جاری کیا کہ جی وہ آپ کی ذمہ داری ہے اور آپ نے ہی اس کے علاج کے اخراجات جو ہیں وہ برداشت کر نے ہیں کوئی دوسرا بندہ نہیں اداکرے گا اور میں نے کہا جی ٹھیک ہے میری بیوی ہے میری ذمہ داری ہے میں یہ قرض اپنے ذمے لیتا ہوں مجھ سے غلطی ہو گئی جو میں نے اپ لوگوں سے مانگ لیا اور اس کی وراثت میں میرا بھی کوئی حصہ بنتا ہے تو انہوں نے کہا جی نہیں اپ کا نکاح تو ایک فارمیلٹی تھا اپ کا کچھ نہیں بنتا جب اس کی بیماری کے پیسے بھرنے کی بات آتی ہے تو میں گھر والا ہوں میں شوہر ہوں میں زندہ ہو جاتا ہوں جب میں کچھ مانگتا ہوں تو کہتے ہیں جی نہیں اپ کی فارمیلٹی ہے 1 بچوں کے سارے ہی چاچو ہیں لیکن جس کا نکاح ھے کیا بچے اسکے نزدیک ہیں یا خالہ خالو کے 2 اور خاص بات یہ ہے کہ جس چچا نے خود ہی بچوں کو 2019 میں الگ کیا تھا آج وہی بچوں کو اپنے ساتھ لے جانے ان پہ اپنا حق جتانے کی بات کس حوالے کر سکتا ھے. 3 اور ایک سوال مرحومہ کی بیماری پر جو خرچ ھوا وہ ساری ذمہ داری شوہر کی ھے یا جو پیسہ تنخواہ آ رہی ھے پچوں کو اس میں سے وہ قرض بھرا جا سکتا ھے
جی اس مرحومہ کی جائیداد میں سے 1/4 شوہر کا حق ہے۔ اور بقیہ ان کی اولاد بیٹے اور بیٹیوں کوملے گا. میت کی اولاد ہیں تو پھر چاچو کو کچھ نہیں ملتا۔ صرف شوہر کو 1/4 باقی بچوں کو ہی ملے گا۔ ھر 1 بچی کو ایک حصہ اور ھر بچے کو دو حصے ملے گا. 2 اور کسی کو کچھ نہیں ملتا ہے. 3 جی بیوی کا ضروری اخراجات ساری شوہر پر یے