کیا فقہ جعفریہ میں میں ایک ہی بار تین طلاق ہو سکتی ہے
فقہ جعفریہ میں صحیح طلاق کی بنیادی شرائط ا۔ شوہر ، وکیل یا حاکم شرع یعنی طلاق دینے کا اختیار شوہر ، اس کے وکیل ، یا کبھی حاکم شرع (مرجع تقلید ) کو حاصل ہے کوئی اور شخص کسی کی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا۔ ۲۔ بالغ ہو : یعنی طلاق دینے والا شوہر بالغ ہونا ضروری ہے ( پندرہ سال مکمل ہو چکا ہو) اگر کوئی نا بالغ شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے تو وہ طلاق درست نہیں ہے۔ ۳۔ عقل رکھتا ہو : یعنی طلاق دینے والا عاقل ہو ناضروری ہے تو اگر سفیہ شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے تو وہ طلاق درست نہیں ہے۔ ۴۔ ارادے کے ساتھ : یعنی ارادے کے ساتھ طلاق دی جائے وگرنہ بغیر قصد اور ار داے کے مزاح میں ، غلطی یا بھولے سے دی جانے والی طلاق درست نہیں ہے۔ ۵- اختیاری حالت میں طلاق دے: یعنی شوہر اپنی بیوی کو اپنی مرضی سے طلاق دے، پس اگر کسی شوہر کو بدون اختیار ( مثلا کسی کی طرف سے زبر دستی اور ڈرا کر یا مجبور کر کے طلاق نہ دی جائے ) طلاق کا صیغہ زبان پر جاری کرے تو یہ طلاق درست نہیں ہے۔ ۔ زبانی طلاق : صیغہ یعنی طلاق کا صیغہ زبان پر جاری کرے تو اگر کاغذ پر لکھ دے لیکن زبان پر صیغہ جاری نہ کیا جائے تو وہ طلاق درست نہیں ہے۔ ے۔ دو گواہوں کی موجودگی : یعنی طلاق کا صیغہ دو عادل گواہوں کی موجودگی میں جاری کیا جائے و گرنہ صحیح نہیں ہے۔ بغیر کسی تعلیق کے طلاق دی جائے: طلاق کو کسی اور شئی پر معلق یا کسی اور چیز کے ساتھ مشروط نہ کیا جائے، اگر مشروط اور متعلق طلاق دی جائے تو یہ صحیح نہیں ہے۔ ۹۔ بیوی کی پاکیزگی کی حالت میں طلاق دی جائے: یعنی طلاق کے دوران خاتون حیض اور نفاس سے پاک ہو ناضروری ہے ورنہ طلاق صحیح نہیں ہے۔ ۱۰ طھر غیر مواقعہ طلاق نہ دی جائے: یعنی جس حالت طہر میں شوہر نے ہمبستری کی ہو اسی ہمبستری والے ظھر میں طلاق دینا درست نہیں ہے، پس صحیح طلاق کے لیے ضروری ہے پاک ہونے کا انتظار کیا جائے ، جب حیض سے پاک ہو پھر بغیر ہمبستری کے طلاق دی جائے۔ لیکن اگر صرف نکاح ہوا ہو لیکن ہمبستری نہیں ھوئی ہو اور طلاق دینا چاہتا ہو تو پھر اس صورت میں طہارت کی شرط نہیں ہے۔ نوٹ : مذکورہ بالا شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی طلاق کے وقت نہ پائی جائے تو وہ فقہ جعفریہ کے مطابق طلاق شرعی نہیں ہو گی. ان تمام شرائط کو مدنظر رکھ کر ایک ہی مجلس میں تین طلاق کو ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے۔