ایک شیعہ لڑکی نے اہل سنت لڑکے کے ساتھ کورٹ میرج کی تھی۔ بعد ازاں لڑکی کے گھر والوں نے عہد کیا کہ آپ ہمیں اپنی لڑکی واپس کر دیںِ ہم رسومات کے ذریعے ہماری بیٹی کی رخصتی کر دیں گے اور لڑکے والوں نے لڑکی ان کے حوالے کر دیے۔ لیکن بعد میں لڑکی والوں نے تنسیخِ نکاح کا دعویٰ دائر کر دیا جب عدالتی تاریخ آئی تو لڑکے کی جانب سے بھی جوابِ دعویٰ دائر کر دیا۔ بالآخر عدالت سے لڑکی کے حق میں فیصلہ آیا۔ اور لڑکی کا نکاح کسی دوسرے شیعہ لڑکے سے کرا دیا۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا جس شیعہ مولوی نے نکاح پڑھا ہے اس بارے اہل سنت علماء کیا کہتے ہیں اور اگر اہل سنت علماء اس نکاح کو غلط کہیں تو فقہ جعفریہ میں اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟

سوال کے مطابق اصلاً اس لڑکی کا نکاح اہل سنت لڑ کے کے ساتھ کورٹ کے ذریعے ہوا ہے اس میں ہی اشکال ہے۔ کیونکہ فقہ جعفریہ کے مطابق لڑکی کا نکاح اس کے والد کی اجازت سے درست ہے والد کی اجازت کے بغیر ہوا ہے تو اس نکاح کے درست ہونے میں ہی اشکال ہے۔ اگر جامع الشرائط نکاح ہوا ہو یعنی ایجاب و قبول کے ساتھ اور والد کی اجازت کے ساتھ نکاح ہو گیا ہو تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا اہل سنت کے نزدیک عدالت کے ذریعے لی جانے والی طلاق کی کیا حیثیت ہے؟ اگر وہ (اہل سنت فقہ میں) عدالت سے ملنے والی طلاق درست ہے تو پھر جو بعد میں شیعہ مولانا کے ذریعے نکاح پڑھا گیا ہے وہ درست مانا جائے گا ورنہ وہ نکاح درست نہیں ہوگا۔ اب سوال کے مطابق پہلا نکاح ہی درست نہیں پڑھا گیا اس لیے اس (پہلے والے نکاح) کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ لہٰذا اس طلاق کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اس لیے بعد میں شیعہ مولوی کے ذریعے پڑھا جانے والا نکاح درست مانا جائے گا۔